۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مجلسِ عزاء

حوزہ/ مولانا ڈاکٹر کاظم مہدی عروج نے مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کچھ لوگ مولا کے معنی میں طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، کہتے ہیں کہ مولا کے معنی حاکم و سرپرست کے نہیں، بلکہ دوست کے ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مولا کے معنی اگر حاکم و سرپرست کے نہیں ہیں تو کل غدیر خم میں حارث ابن نعمان فہری نے اپنے لئے عذاب کیوں مانگا تھا؟

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا ڈاکٹر کاظم مہدی عروج نے مجلسِ عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کچھ لوگ مولا کے معنی میں طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، کہتے ہیں کہ مولا کے معنی حاکم و سرپرست کے نہیں، بلکہ دوست کے ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مولا کے معنی اگر حاکم و سرپرست کے نہیں ہیں تو کل غدیر خم میں حارث ابن نعمان فہری نے اپنے لئے عذاب کیوں مانگا تھا؟

انہوں نے کہا کہ بیشک اللہ مومنوں کا والی و حاکم ہے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں ۔ یہی لوگ دوزخ والے ہیں ،یہ ہمیشہ اس میں رہیں گے‘‘۔

مولا کے معنی اگر حاکم و سرپرست کے نہیں ہیں تو حارث ابن نعمان فہری نے عذاب کیوں مانگا تھا؟

قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 257 میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے کہ اللہ مومنوں کا حاکم ہے جو انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے، مگر اللہ جو جسم و جسمانیات سے مبرا و منزہ ہے وہ خود دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بظاہر سامنے نہیں آتا بلکہ اس نے ایک ولایت کا پینل بنایا ہے جس کے ذریعہ سے نظام ہدایت و ولایت جاری و ساری ہے اور اس پینل کا سور ہ مائدہ کی آیت نمبر 55 میں یوں متعارف کرایا گیاہے۔’’بس تمھارے والی و حاکم اللہ اور اس کا رسول اوروہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں درحالیکہ رکوع میں ہوتے ہیں‘‘۔تمام مفسرین قرآن کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب آپ نے مسجد نبوی میں حالت رکوں میں زکوٰۃ دی تھی۔ مفسرین قرآن نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ سائل کوئی اور نہیں بلکہ جبرئیل امین تھے ۔اور وہ انگوٹھی کوئی اور نہیں بلکہ وہی انگشتری تھی جسے پہن کر جناب سلیمانؑ پیغمبر حکومت فرمایا کرتے تھے۔

ان خیالات کا اظہار معروف خطیب اہل بیت ڈاکٹر مولانا سید کاظم مہدی عروج جونپوری نے شبیہ روضہ امام حسین علیہ السلام واقع املو، مبارکپور کے وسیع وعریض صحن میں مہدی آرمی فیڈریشن املو کی جانب سے منعقد سالانہ خمسہ مجالس( بتاریخ ۲۲؍صفر المظفر۱۴۴۶ہجری لغایت۲۶؍ صفر المظفر ۱۴۴۶ہجری بو قت ساڑھے آٹھ بجے شب ) چوتھے دور کی دوسری مجلس کو ’’ولایت قرآن و ایمان کی روشنی میں ‘‘ موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا نے مزید فرمایا کہ اسی ولایت پینل کی ترتیب کے ساتھ پیغمبر اسلام نے حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر میدان غدیر خم سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں پالان شتر کے منبر کی بلندی سے پہلے اللہ کی وحدانیت و ولایت کا اعلان کیا پھر اپنی رسالت وولایت کا اعلان کیا پھر مولا علی ؑ کی امامت و ولایت کا اعلان کیا ’’جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ بھی مولا ہیں ‘‘۔

مولانا نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ آج کچھ لوگ مولا کے معنی میں طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ،کہتے ہیں کہ مولا کے معنی حاکم و سرپرست کے نہیں بلکہ دوست کے ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مولا کے معنی اگر حاکم و سرپرست کے نہیں ہیں تو کل غدیر خم میں حارث ابن نعمان فہری نے اپنے لئے عذاب کیوں مانگا تھا؟اس سے بہتر عربی لفظ کا مفہوم و معنی کون سمجھ سکتا ہے؟کیونکہ جو جس زبان و مکان کا رہنے والا ہوتا ہے وہی اپنی زبان کے الفاظ و معنی کو بہتر سمجھ سکتا ہے۔

مولانا نے کہا کہ تاریخ میں ہے کہ جب غدیر خم کا واقعہ اور اس دن مولا علی کے سلسلہ میں سرکار نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بات شہروں میں پھیل گئی تو یہ بات حارث بن نعمان فہری تک بھی پہونچی پس وہ حضور کی خدمت میں ایک ناقہ پر سوار ہو کر آیا اور ایک نالے میں اپنے ناقہ سے اترا اور اسے بٹھادیا، پھر حضور سے کہنے لگا،محمدؐ آپ نے ہمیں کلمہ شہادتین کا حکم دیا تو ہم نے گواہی دی۔ آپ نے ہمیں نماز پنجگانہ کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا، پھر آپ نے ہمیں زکات نکالنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا، آپ نے ہمیں ایک مہینہ روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا ،آپ نے ہمیں حج کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا ،پھر آپ نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے چچا زاد بھائی (علی ابن ابی طالب علیہ السلام ) کو بلند کرکے ہم سب پر اس کو افضل قرار دیا اور کہا:’’میں جس کا مولا ہوں علیؑ اس کا مولا ہے‘‘- سچ بتایئے گا کہ یہ آپ نے اپنی طرف سے کہا ہے یا خدا کی طرف سے؟۔سرکارؐ نے فرمایا: اس کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے کہا ہے یہ سن کر حارث بن نعمان اپنی سواری کی طرف یہ کہتا ہوا مڑا: پالنے والے اگر محمدؐ حق کہہ رہے ہیں تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہمیں دردناک عذاب دیدے۔ ابھی وہ اپنی سواری تک پہونچا نہیں تھا کہ اللہ نے اس پر ایک پتھر مارا جو اس کے سر پر لگا اور سر کو پھاڑتا ہوا نیچے سے نکل گیا اور خدا نے یہ آیت نازل فرمائی: سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ-لِّلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ-مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ (سورہ معارج:آیت:۳،۲،۱)ترجمہ ’’ایک سائل نے کافروں پر واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا جو بلندیوں والے خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں‘‘۔

آخر میں مولانا نے دربار یزید میں اہل حرم پر پیش آنے والے دردناک مصائب بیان کئے جسے سن کر سامعین کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ خمسہ مجالس کا یہ چوتھا دور ہے جس میں ابتداء سے آج تک معروف خطیب اہل بیت ڈاکٹر مولانا سید کاظم مہدی عروج جونپوری ہی مسلسل ہر سال الگ الگ موضوعات پر مجالس کو خطاب کرتے آرہے ہیں۔

اس موقع پر مولانا ابن حسن املوی واعظ، مولانا محمد مہدی قمی، ماسٹر شجاعت، ماسٹر قیصر رضا حاجی عاشق حسین اور حاجی ابن حسن سمیت کثیر تعداد میں بلا امتیاز مذہب و مسلک لوگوں نے شرکت کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .